Saturday, 25 December 2010

Letter by Founder of Pakistan to his nation (Urdu version)


Urdu Version


پاکستانیوں کے لئےقائد اعظم کا تازہ ترین خط ﴿تصوراتی﴾
﴿منیر حسین صدیقی﴾
میرے بچو اور بچیو
١۴ اگست ١۹۴۷ کو پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا میری زندگی کا دیرینہ خواب تھا جس کی تکمیل میری زندگی کا سب سے بڑا مقصد تھا۔آدمی خواب دیکھے ، اس خواب کی تکمیل کے لئے کوشش کرے اور قدرت اس کی کوشش کو قبول کرکے اس خواب کو حقیقت کا روپ عطا کردے تو اس شخص کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔

انسان کی عادتِ جاریہ ہے کہ جب وہ کسی کوشش کو پایائے تکمیل تک پہنچا دے تو پھر اس کے مضطرب دل میں کوئی نیا جذبہ، جنون، خواہش یا خواب جاگ اٹھتا ہے۔ قیام پاکستان کا خواب مکمل ہوا تو میرے دل میں بھی ایک اور خواب نے جنم لیا۔ لیکن میرے بچو اور بچیو اب میرے پاس اس خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی طاقت  تھی، نہ عمر اور صحت اس کی اجازت دیتی تھی چنانچہ میں نے اپنا یہ خواب اپنی نئی نسل کے حوالہ کردیا۔

میرا خواب یہ تھا کہ ہماری نسل نے اپنا خونِ جگر پلا پلا کرآزادی کی جس ننھی سی کونپل کوسینچا ہماری اگلی نسل اس کونپل کو ایک تناور درخت بنادے ۔اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت مجھے اپنی نسل سے صرف یہی تسلی درکار تھی۔ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک میرے کچھ بچوں اور بچیوں سے مجھے تکلیف بھی پہنچی خصوصاً سیاسی، معاشی اور معاشرتی کمزوریوں کو دیکھ کر دل خون رنگ ہوجاتا ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ ہو ، ۲۰۰۵ کا ہولناک زلزلہ، ۲۰١۰ کا نصف پاکستان کو دریا برد کردینے والا سیلاب یا اپنے ہی بھائی بہنوں کو بارود  سے اڑادینے والے سرپھرے اذیت پسند ۔۔۔یہ سب میرے دل پر لگنے والے دردانگیز چرکے ہیں ۔ میں ان منفی اور درد کشا باتوں سے کشا ں کشاں گزرتا ہوا کچھ مثبت اور دل افزا معاملات کی جانب آتا ہوں۔

جب پاکستان نے ایٹمی طاقت کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوایا تو دل کے تمام چراغ روشن ہوگئے۔ جب پہلی مرتبہ پاکستان سے قدرتی گیس اور پھر ریکوڈک میں بیش بہا قدرتی وسائل  کی دریافت ہوئی تو میری خوشی دیدنی تھی۔ جب جب پاکستان کے جواں دل اور ارادہ سپوت کرکٹ، ہاکی، اسکواش، اسنوکر، باکسنگ اور دیگر کھیلوں میں اپنے ملک کا نام روشن کرتے ہیں تو دکھائی دیتا ہے کہ میرا لگایا ہوا ایک پودا کس طرح درخت بنتا چلاجارہا ہے۔ جب میرے ملک کے بچے اور بچیاں ملک میں اور ملک سے باہر علم و فن میں اپنے جوہر دکھاتے ہیں تو میرا دل اسی طرح خوشی سے بلیوں اچھلنے لگتا ہے جیسے کوئی باپ اپنی اولاد کے ہاتھ میں امتحانی رپورٹ کے ساتھ کوئی ٹرافی یا انعام دیکھ کر مسرور اور شادمان ہوجاتا ہے۔
میرے جان سے پیارے بچو

اس ملک کو اپنی سانس کی لو اور دل کی دھڑکن سے زیادہ لگا کر رکھو۔ تم نہیں جانتے مگر ہم نے دیکھا ہے کہ آزادی کتنی بڑی نعمت اور غلامی کتنا بڑا عذاب ہے۔ آزادی کی قدر کا اندازہ کرنا ہے تو کشمیر کی جانب نگاہ اٹھاو کہ کس قدر جان ومال اور عزت و آبرو کو داو   پر لگانا پڑتا ہے۔ آزادی کی نعمت کی طلب دیکھنا ہے تو فلسطین کے ان ننھے مسلے ہوئے معصوم بچوں سے پوچھو جو غاصب کے بارودکا کفن پہن کر لحد میں اتر گئےیا ان بے عصمت بوسنیائی بہنوں سے پوچھو جن کے پندرہ سے ستر سال  کے بیشتر مردوں کو قتل کرکے خواتین کی عزتوں کو تارتار کیا گیا ۔آزادی کبھی پلیٹ میں سجا کر نہیں ملا کرتی میرے بچو اس لئے قدرت نے جو تم کو عطا کردیا ہے اس کی قدر کرو۔

میں جانتا ہوں کہ تم اپنے ملک کے سیاسی و سماجی جغادریوں سے پریشان ہو، مہنگائی اور بے روزگاری نے تمہاری کمر توڑ دی ہے، غداروں اور چاپلوسوں کی فوج ظفر موج سے تم دل گرفتہ ہو، بین الاقوامی سطح پر تم خود کو خس و خاشاک کی طرح محسوس کرتے ہو، تمہارے حکمران تمہارے لئے باعثِ ننگ وعار بن گئے ہیں، جرائم اور بدعنوانیوں کا آسیب پورے ملک پر سایہ فگن ہے، شدت پسندی اور اذیت پسندی کی ایک ہیبت ناک لہر امڈ آئی ہے جس سے کوئی بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتا، طاقتور اور عیار قومیں تمہارے گرد بھوکے گدھ کی مانند منڈلارہی ہیں کہ کب جان نکلے اور وہ تمہیں نوالہ تر کی طرح نوشِ جاں کرلی۔۔۔۔۔ یقیناً تم پریشان ہو کیونکہ تم اس ملک سے محبت کرتے ہو۔ اگر تمہارا دل اس ملک کی محبت سے معمور نہ ہوتا تو تمہارے اکاونٹس بھی سوئس بینکوں اور اولادیں مغربی ممالک میں زیرِتعلیم ہوتے ۔ تم خود سوچ سکتے ہو جس کی فیملی اور دولت ہی کسی اور جگہ ہو وہ اس سرزمین سے کیا خاک محبت کرسکتا ہے۔ یہ لوگ صرف موقع پرست ہیں ۔ مگر ان موقع پرستوں کو یہ موقع دیا کس نے ؟ کیا تم نے کبھی یہ سوچا ہے؟

میں تم کو ایک راز کی بات بتاتا ہوں۔ تم ملک کی بہتری کا خواب دیکھتے ہو تو بہتری اس وقت آئے گی جب تم خود بہتر ہوگے۔ بہتر کب ہوگے؟  جب تم اپنی سوچ اور اپنی طرزِفکر میں تبدیلی لاو۔ پاکستان اس وقت بنا جب چند لوگوں نے پاکستان بنانے کا خواب دیکھا اور پھر اس خواب کو شرمندہ تعبیر بنانے کے لئے سرگرمِ عمل ہو گئے۔پھر لوگ ملتے گئے، فرد سے افراد بنے، پھر اس نے ایک قومی تحریک کی شکل اختیار کرلی۔ قیام پاکستان سے پونے دو صدی پیچھے جاکر دیکھو۔ انقلابِ فرانس سے قبل فرانسیسی قوم بھی طرح طرح کے ٹیکسوں کا شکار تھی، وہاں تم سے بھی زیادہ خوفناک جاگیردارانہ نظام تھا جہاں جاگیردار اپنا ذاتی ٹیکس لیا کرتے تھے۔ ان کے دور میں مذہب کے نام پر اتنے شرمناک مظالم ہوا کرتے تھے کہ تم اپنے دور کے خودکش بمبار کو بھول جاو گے۔ اس سے بھی پہلے جرمنی، برطانیہ ، سوئیڈن اور ڈنمارک چار سو سال تک خونچکاں جنگوں، تصادم اور سول وار سے جلتے رہے۔ پاکستان کے حالات کتنے ہی دگرگوں کیوں نہ ہوں مگر ان جیسے تو نہیں۔ بس اپنے سوچنے کا انداز تبدیل کرو۔

ترقی یافتہ ممالک میں یہ جو تم  ترقی اور خوشحالی دیکھ رہے ہو اس کی بنیاد میں زمانہ تاریکMedieval age، دور نو علمیت Renaissance، اور دورِاصلاح Reformation کے تقریباً ایک ہزار سال کی خانہ جنگیاں اور قتل و غارت گری شاملِ حال رہی۔  یہ ترقی اور خوشحالی ان میں اس وقت آئی جب انہوں نے سوچا کہ ان کو ایسی خرابیوں کو خرابی سمجھنا ہے، خرابی کو روکنا ہے اور آئندہ کبھی بھی پنپنے سے روکنا ہے۔ یہ بات کہہ دینا جتنا آسان اسے کردکھانا اتنا ہی مشکل ہے۔ خرابی کو دور کرنے کے لئے بہت سخت حالات سے نبردآزما ہونے کا حوصلہ چاہئے۔ اس میں کچھ وقت لگ سکتا ہے، مال و وسائل کا ایثار یا پھرجان کی قربانیوں سے گزرنا پڑسکتا ہے۔

اپنے آپ کو بدلنا ہے تو سب سے پہلے ان لوگوں کا مطالعہ کرو جن لوگوں نے خود کو بدلا اور پھر اپنے ماحول میں تبدیلی لائے۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے سب سے پہلے تو پیغمبروں کے کردار اور طرز ہا ئےحیات کو ہی دیکھ لو۔ جب پیغمبر اللہ کا پیغام لے کر آیا کرتے تھے تو ان کی کس قدر مخالفت کی جاتی تھی۔ الہامی صحائف اور کتبِ سماویہ گواہ ہیں کہ سوسائٹی کے طاقتور غاصب عناصر نے ان کی کس قدر شدید مخالفت کی۔ اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کا آغاز انبیائے کرام کی زندگیوں کے مطالعہ سے کرو جو ایک مکمل اور جامع عمل ہوگا۔

عصر حاضر کی مثالوں سے بھی روشنی حاصل کرو۔ اقبال، حسرت،  جوہر،سرسید، فیض اور سبطِ حسن کو پڑھو۔ والٹیئر، روسو، ٹالسٹائی، ہیگل، کانٹ، ہوبس اور جان لاک کو پڑھو۔ ذہین کے ساتھ ساتھ عملی لوگوں کو پڑھنا ہے تو برطانوی  ولیم ولبرفورس کو پڑھو جس نے پرامن تحریک کے ذریعے جدوجہد کی اور برطانیہ سے غلامی کا خاتمہ کرنے کے لئے پارلیمنٹ میں بل پیش کیا ۔وہ چوبیس سال تک اس مقصدکے لئے لڑتا رہا بالآخر جیت اسی کی ہوئی۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کو پڑھو جس نے امریکی سیاہ فام طبقے کے لئے پرامن جدوجہد کی یہاں تک کے امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا اور ایک روز ایک بزدل نے اسے جان سے مار دیا۔طاقت اور بزورِ شمشیر تبدیلی لانے والوں کا مطالعہ کرنا ہے تو ارنسٹ چے گوویرا کو پڑھو جو ڈاکٹر کی حیثیت سے پرسکون زندگی گزاررہا تھا لیکن استعماریت کے درپردہ مظالم سے ایسا دلبرداشتہ ہوا کہ ساری زندگی کے لئے ہتھیار ہاتھ میں اٹھا لیا۔ زندگی کا سکون غارت ہوگیا، نہ گھر رہا نہ گھر والے لیکن اپنے مقصد سے نہ ہٹا کیوبا کے انقلابی فیدل کاسترو کا دستِ راست بنا۔ کیوبا میں انقلاب لانے کے بعد دوسرے ممالک میں استعماریت کے خاتمہ اور اشتراکیت کے پرچار میں مصروف ہوگیا بالآخر بولیویا میں جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔

 میرے بچو علم ترقی کے راستے کا پہلا زینہ ہے جب ہی توتعلیم ہر غاصب کا ہدفِ راست رہی ہے۔ تمہارے سالانہ بجٹ میں سے تعلیم پر ہونے والی بار بار کٹوتی اس کا نمایاں ثبوت ہے۔  مطالعہ اور تعلیم کو اپنا زیور بنالو تو یہ تم کو دنیا کی سب سے جاذب نظر قوم بنادے گا۔ تم میں قابلیت ہے مگر اس کو اجاگر کرنے کے لئے تم کو خود ہی آگے آنا ہوگا۔ خود کو بدلو اور اقبال کے قول کے مطابق اپنی خودی کو بلند کرلو پھر دیکھنا کہ کون تمہاری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتا ہے۔

Saturday, 18 December 2010

Imam Husayn (R.A): Change through martyr of life, family and companions




Husayn ibn ‘Alī: (Arabic: حسين بن علي بن أﺑﻲ طالب) (8 January 626 AD - 10 October 680 AD) Imam Husayn (R.A) was the son of ‘Alī ibn Abī Ṭālib  and Fātimah Zahrā (daughter of Prophet Muhammad PBUH). Husayn has a symbolic figure in history of Islam as he revived the spirit of true Prophetic (Islamic) approach by his martyr just in half century since Prophet Muhammad passed away. He is recognized as the 'Martyr Of Martyrs' by both Muslim sects of Sunni and Shia.
Husayn ibn Ali (R.A) was exalted by all his close relatives and belovers (around 73) as a martyr. Imam did not accept the tyranny and dictatorship of Yazid, the Umayyad caliph, who believed to be empowered by force, defiance, and threat. Consequently Yazid aimed to execute and kill him. Imam Hussain avoided coming into war and violence, therefore left behind his birthplace the city of Medina. But the Yazidi forces beset him at Karbala (in Iraq). As a consequence, in 680, Husayn (R.A) was martyred and beheaded in the Battle of Karbalā. On the spot 72 members of his family and followered also martyred and/or beheaded including his 6 month’s child. The anniversary of his martyrdom is ("tenth" day of Islamic month Muharram) celebrated in most of Muslim countries as a day of mourning.
Outcome of Martyrdom of Imam Husayn (R.A)
1.       He distinguished a clear line between tyrannical themes of Yazid’s claims to be followed and real spirit of Islam.
2.       He had clear view on symptoms of decay and corruption in the system of the state.
3.       Thomas Carlyle says ‘They[Imam Husayn and His companions] illustrated that the numerical superiority does not count when it comes to the truth and the falsehood. The victory of Husain, despite his minority, marvels me!
4.       Dr. Muhammad Iqbal comments that ‘Imam Husain uprooted despotism forever, till the Day of Resurrection. He watered the dry gardens of freedom with a surging wave of his blood, and indeed he awakened the sleeping Muslim nation. If Imam Husain had aimed at acquiring the worldly empire, he would not have traveled the way he did. Husain weltered in blood and dust for the sake of truth. Verily, therefore, he becomes the foundation of the Muslim creed ‘La Ilaha Il-lallah,’ meaning, there is no deity but Allah (God).’ 


Martin Luther King Jr. Change through non-violent process


Martin Luther King. (January 15, 1929 – April 4, 1968) He was an American activist and prominent leader in the Afro-American civil rights movement. Luther King had an iconic figure in the advancement of civil rights of depressive class in the United States and around the world, by non-violent process. He is often presented as a heroic leader of modern American liberalism in the history of America.
King became a civil rights activist early in his political career. He led the Montgomery Bus Boycott in 1955 and helped establishing the Southern Christian Leadership Conference in 1957 and serving as its first president. Luther King's efforts led to the 1963 as remarkably March on Washington, where King delivered his most famous ‘I Have a Dream’ speech. On the occasion, he desired American values to include the image of a colour blind society, and he established his political reputation as one of the greatest speakers in American history.
King became the youngest person to receive (in 1964) the Nobel Peace Prize for his struggle to end racial isolation and racial discrimination by non-violent efforts. By the time of his assassination in 1968, he had refocused on ending poverty and stopping the Vietnam War.
On April 4, 1968, he was assassinated, in Memphis, Tennessee. In 1977, King was awarded the Presidential Medal of Freedom and in 2004 Congressional Gold Medal. The Martin Luther King, Jr. Day celebrated in the U.S.A every year that was established as an American national holiday in 1986.
King's famous speech 'I have a dream' can be seen as below:

Friday, 17 December 2010

Change Through Invention: Johannes Gutenberg



Johannes Gensfleisch, zur Laden zum Gutenberg (Born. 1398 – Death. February 3, 1468). He was a German goldsmith, printer and publisher introduced modern book printing. Johannes Gensfleisch’s invention of mechanical variable type printing started the writing and Printing Revolution and that is widely regarded as the most significant event of the modern era. It played a key role in the advancement and development of the Renaissance, Reformation era, the Scientific and Industrial Revolution and founded the concrete basis for the spread of learning to the masses and the modern knowledge-based economy.
Gutenberg was the first European inventor who used variable printing in around 1439 and the world’s reputable inventor of the printing press. In his many contributions to printing revolution are: the invention of the use of oil-based ink; a process for mass-producing movable type; and the use of a wooden printing press alike agricultural screw presses of the age. His really epochal invention was the mixture of these elements into a realistic system which allowed the accumulating production of printed material and was economically feasible for printers and readers alike. His method for making form is traditionally considered to have included a hand mould for casting type and a type of metal alloy.
It was a remarkable improvement on the handwritten manuscripts which was the existing method of textual production in the Europe, woodblock printing and revolutionised the European book-making. His printing technology spread rapidly throughout the Europe and later the world.

Thursday, 16 December 2010

Change Through Peaceful Struggle


William Wilberforce (24 August 175929 July 1833) was a British politician, a philanthropist and a leader of the movement to abolish theslave trade. A native of Kingston upon Hull, Yorkshire, he began his political career in 1780 and became the independent Member of Parliament for Yorkshire (1784–1812). In 1785, he underwent a conversion experience and became an evangelical Christian, resulting in major changes to his lifestyle and a lifelong concern for reform. In 1787, he came into contact with Thomas Clarkson and a group of anti-slave-trade activists, including Granville Sharp, Hannah More and Charles Middleton. They persuaded Wilberforce to take on the cause of abolition, and he soon became one of the leading English abolitionists. He headed the parliamentary campaign against the British slave trade for twenty-six years until the passage of the Slave Trade Act 1807.
Wilberforce was convinced of the importance of religion, morality, and education. He championed causes and campaigns such as theSociety for Suppression of Vice, British missionary work in India, the creation of a free colony in Sierra Leone, the foundation of the Church Mission Society and the Society for the Prevention of Cruelty to Animals. His underlying conservatism led him to support politically and socially repressive legislation, and resulted in criticism that he was ignoring injustices at home while campaigning for the enslaved abroad.
In later years, Wilberforce supported the campaign for the complete abolition of slavery, and continued his involvement after 1826, when he resigned from Parliament because of his failing health. That campaign led to the Slavery Abolition Act 1833, which abolished slavery in most of the British Empire; Wilberforce died just three days after hearing that the passage of the Act through Parliament was assured. He was buried in Westminster Abbey, close to his friend William Pitt.

Change Through Revolution


Che Guevara: Ernesto "Che" Guevara  June 14, 1928 – October 9, 1967), commonly known as El Che or simplyChe, was an Argentine Marxist revolutionary, physician, author, intellectual, guerrilla leader, diplomat, military theorist, and major figure of the Cuban Revolution. Since his death, his stylized visage has become a ubiquitous countercultural symbol and global insignia within popular culture.
As a medical student, Guevara traveled throughout Latin America and was transformed by the endemic poverty he witnessed. His experiences and observations during these trips led him to conclude that the region's ingrained economic inequalities were an intrinsic result of capitalism, mono-polism, neo-colonialism, and imperialism, with the only remedy being world revolution. This belief prompted his involvement in Guatemala's social reforms under President Jacobo Arbenz, whose eventual CIA-assisted overthrow solidified Guevara's radical ideology. Later, while living in Mexico City, he met Raúl and Fidel Castro, joined their 26th of July Movement, and travelled to Cuba aboard the yacht, Granma, with the intention of overthrowing U.S.-backed Cuban dictator Fulgencio Batista. Guevara soon rose to prominence among the insurgents, was promoted to second-in-command, and played a pivotal role in the successful two year guerrilla campaign that deposed the Batista regime.
Following the Cuban Revolution, Guevara performed a number of key roles in the new government. These included instituting agrarian reform as minister of industries, serving as both national bank president and instructional director for Cuba’s armed forces, reviewing the appeals and firing squads for those convicted as war criminals during the revolutionary tribunals, and traversing the globe as a diplomat on behalf of Cuban socialism. Such positions allowed him to play a central role in training the militia forces who repelled the Bay of Pigs Invasion and bringing to Cuba the Soviet nuclear-armed ballistic missiles which precipitated the 1962 Cuban Missile Crisis. Additionally, he was a prolific writer and diarist, composing a seminal manual on guerrilla warfare, along with a best-selling memoir about his youthful motorcycle journey across South America. Guevara left Cuba in 1965 to foment revolution abroad, first unsuccessfully in Congo-Kinshasa and later in Bolivia, where he was captured by CIA-assisted Bolivian forces and executed.
Guevara remains both a revered and reviled historical figure, polarized in the collective imagination in a multitude of biographies, memoirs, essays, documentaries, songs, and films. Time magazine named him one of the 100 most influential people of the 20th century, while an Alberto Korda photograph of him entitled Guerrillero Heroico (shown), was declared "the most famous photograph in the world."

Geo-Political Change Through Peaceful Struggle



Mohammad Ali Jinnah (Urdu: محمد علی جناح); December 25, 1876September 11, 1948) was a 20th century lawyer, politician, statesman and the founder of Pakistan. He is popularly and officially known in Pakistan as Quaid-e-Azam (Urdu: قائد اعظم — "Great Leader") and Baba-e-Qaum (باباۓ قوم) ("Father of the Nation").
Jinnah served as leader of the All-India Muslim League from 1913 until Pakistan's independence on August 14, 1947 and Pakistan's first Governor-General from August 15, 1947 until his death on September 11, 1948. Jinnah rose to prominence in the Indian National Congressinitially expounding ideas of Hindu-Muslim unity and helping shape the 1916 Lucknow Pact between the Muslim League and the Indian National Congress; he also became a key leader in the All India Home Rule League. He proposed a fourteen-point constitutional reform planto safeguard the political rights of Muslims in a self-governing India.
Jinnah later advocated the Two-Nation Theory embracing the goal of creating a separate Muslim state as per the Lahore Resolution. The League won most reserved Muslim seats in the elections of 1946. After the British and Congress backed out of the Cabinet Mission PlanJinnah called for a Direct Action Day to achieve the formation of Pakistan. The direct action by the Muslim League and its Volunteer Corps, resulted in massive rioting in Calcutta between Muslims and Hindus. As the Indian National Congress and Muslim League failed to reach a power sharing formula for united India, it prompted both the parties and the British to agree to independence of Pakistan and India. As the first Governor-General of Pakistan, Jinnah led efforts to lay the foundations of the new state of Pakistan, frame national policies and rehabilitate millions of Muslim refugees who had migrated from India.
He died in September 1948, just over a year after Pakistan gained independence from the British Empire.