Urdu Version
﴿منیر حسین صدیقی﴾
میرے بچو اور بچیو
١۴ اگست ١۹۴۷ کو پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا میری زندگی کا دیرینہ خواب تھا جس کی تکمیل میری زندگی کا سب سے بڑا مقصد تھا۔آدمی خواب دیکھے ، اس خواب کی تکمیل کے لئے کوشش کرے اور قدرت اس کی کوشش کو قبول کرکے اس خواب کو حقیقت کا روپ عطا کردے تو اس شخص کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔
انسان کی عادتِ جاریہ ہے کہ جب وہ کسی کوشش کو پایائے تکمیل تک پہنچا دے تو پھر اس کے مضطرب دل میں کوئی نیا جذبہ، جنون، خواہش یا خواب جاگ اٹھتا ہے۔ قیام پاکستان کا خواب مکمل ہوا تو میرے دل میں بھی ایک اور خواب نے جنم لیا۔ لیکن میرے بچو اور بچیو اب میرے پاس اس خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی طاقت تھی، نہ عمر اور صحت اس کی اجازت دیتی تھی چنانچہ میں نے اپنا یہ خواب اپنی نئی نسل کے حوالہ کردیا۔
میرا خواب یہ تھا کہ ہماری نسل نے اپنا خونِ جگر پلا پلا کرآزادی کی جس ننھی سی کونپل کوسینچا ہماری اگلی نسل اس کونپل کو ایک تناور درخت بنادے ۔اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت مجھے اپنی نسل سے صرف یہی تسلی درکار تھی۔ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک میرے کچھ بچوں اور بچیوں سے مجھے تکلیف بھی پہنچی خصوصاً سیاسی، معاشی اور معاشرتی کمزوریوں کو دیکھ کر دل خون رنگ ہوجاتا ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ ہو ، ۲۰۰۵ کا ہولناک زلزلہ، ۲۰١۰ کا نصف پاکستان کو دریا برد کردینے والا سیلاب یا اپنے ہی بھائی بہنوں کو بارود سے اڑادینے والے سرپھرے اذیت پسند ۔۔۔یہ سب میرے دل پر لگنے والے دردانگیز چرکے ہیں ۔ میں ان منفی اور درد کشا باتوں سے کشا ں کشاں گزرتا ہوا کچھ مثبت اور دل افزا معاملات کی جانب آتا ہوں۔
جب پاکستان نے ایٹمی طاقت کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوایا تو دل کے تمام چراغ روشن ہوگئے۔ جب پہلی مرتبہ پاکستان سے قدرتی گیس اور پھر ریکوڈک میں بیش بہا قدرتی وسائل کی دریافت ہوئی تو میری خوشی دیدنی تھی۔ جب جب پاکستان کے جواں دل اور ارادہ سپوت کرکٹ، ہاکی، اسکواش، اسنوکر، باکسنگ اور دیگر کھیلوں میں اپنے ملک کا نام روشن کرتے ہیں تو دکھائی دیتا ہے کہ میرا لگایا ہوا ایک پودا کس طرح درخت بنتا چلاجارہا ہے۔ جب میرے ملک کے بچے اور بچیاں ملک میں اور ملک سے باہر علم و فن میں اپنے جوہر دکھاتے ہیں تو میرا دل اسی طرح خوشی سے بلیوں اچھلنے لگتا ہے جیسے کوئی باپ اپنی اولاد کے ہاتھ میں امتحانی رپورٹ کے ساتھ کوئی ٹرافی یا انعام دیکھ کر مسرور اور شادمان ہوجاتا ہے۔
میرے جان سے پیارے بچو
اس ملک کو اپنی سانس کی لو اور دل کی دھڑکن سے زیادہ لگا کر رکھو۔ تم نہیں جانتے مگر ہم نے دیکھا ہے کہ آزادی کتنی بڑی نعمت اور غلامی کتنا بڑا عذاب ہے۔ آزادی کی قدر کا اندازہ کرنا ہے تو کشمیر کی جانب نگاہ اٹھاو کہ کس قدر جان ومال اور عزت و آبرو کو داو پر لگانا پڑتا ہے۔ آزادی کی نعمت کی طلب دیکھنا ہے تو فلسطین کے ان ننھے مسلے ہوئے معصوم بچوں سے پوچھو جو غاصب کے بارودکا کفن پہن کر لحد میں اتر گئےیا ان بے عصمت بوسنیائی بہنوں سے پوچھو جن کے پندرہ سے ستر سال کے بیشتر مردوں کو قتل کرکے خواتین کی عزتوں کو تارتار کیا گیا ۔آزادی کبھی پلیٹ میں سجا کر نہیں ملا کرتی میرے بچو اس لئے قدرت نے جو تم کو عطا کردیا ہے اس کی قدر کرو۔
میں جانتا ہوں کہ تم اپنے ملک کے سیاسی و سماجی جغادریوں سے پریشان ہو، مہنگائی اور بے روزگاری نے تمہاری کمر توڑ دی ہے، غداروں اور چاپلوسوں کی فوج ظفر موج سے تم دل گرفتہ ہو، بین الاقوامی سطح پر تم خود کو خس و خاشاک کی طرح محسوس کرتے ہو، تمہارے حکمران تمہارے لئے باعثِ ننگ وعار بن گئے ہیں، جرائم اور بدعنوانیوں کا آسیب پورے ملک پر سایہ فگن ہے، شدت پسندی اور اذیت پسندی کی ایک ہیبت ناک لہر امڈ آئی ہے جس سے کوئی بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتا، طاقتور اور عیار قومیں تمہارے گرد بھوکے گدھ کی مانند منڈلارہی ہیں کہ کب جان نکلے اور وہ تمہیں نوالہ تر کی طرح نوشِ جاں کرلی۔۔۔۔۔ یقیناً تم پریشان ہو کیونکہ تم اس ملک سے محبت کرتے ہو۔ اگر تمہارا دل اس ملک کی محبت سے معمور نہ ہوتا تو تمہارے اکاونٹس بھی سوئس بینکوں اور اولادیں مغربی ممالک میں زیرِتعلیم ہوتے ۔ تم خود سوچ سکتے ہو جس کی فیملی اور دولت ہی کسی اور جگہ ہو وہ اس سرزمین سے کیا خاک محبت کرسکتا ہے۔ یہ لوگ صرف موقع پرست ہیں ۔ مگر ان موقع پرستوں کو یہ موقع دیا کس نے ؟ کیا تم نے کبھی یہ سوچا ہے؟
میں تم کو ایک راز کی بات بتاتا ہوں۔ تم ملک کی بہتری کا خواب دیکھتے ہو تو بہتری اس وقت آئے گی جب تم خود بہتر ہوگے۔ بہتر کب ہوگے؟ جب تم اپنی سوچ اور اپنی طرزِفکر میں تبدیلی لاو۔ پاکستان اس وقت بنا جب چند لوگوں نے پاکستان بنانے کا خواب دیکھا اور پھر اس خواب کو شرمندہ تعبیر بنانے کے لئے سرگرمِ عمل ہو گئے۔پھر لوگ ملتے گئے، فرد سے افراد بنے، پھر اس نے ایک قومی تحریک کی شکل اختیار کرلی۔ قیام پاکستان سے پونے دو صدی پیچھے جاکر دیکھو۔ انقلابِ فرانس سے قبل فرانسیسی قوم بھی طرح طرح کے ٹیکسوں کا شکار تھی، وہاں تم سے بھی زیادہ خوفناک جاگیردارانہ نظام تھا جہاں جاگیردار اپنا ذاتی ٹیکس لیا کرتے تھے۔ ان کے دور میں مذہب کے نام پر اتنے شرمناک مظالم ہوا کرتے تھے کہ تم اپنے دور کے خودکش بمبار کو بھول جاو گے۔ اس سے بھی پہلے جرمنی، برطانیہ ، سوئیڈن اور ڈنمارک چار سو سال تک خونچکاں جنگوں، تصادم اور سول وار سے جلتے رہے۔ پاکستان کے حالات کتنے ہی دگرگوں کیوں نہ ہوں مگر ان جیسے تو نہیں۔ بس اپنے سوچنے کا انداز تبدیل کرو۔
ترقی یافتہ ممالک میں یہ جو تم ترقی اور خوشحالی دیکھ رہے ہو اس کی بنیاد میں زمانہ تاریکMedieval age، دور نو علمیت Renaissance، اور دورِاصلاح Reformation کے تقریباً ایک ہزار سال کی خانہ جنگیاں اور قتل و غارت گری شاملِ حال رہی۔ یہ ترقی اور خوشحالی ان میں اس وقت آئی جب انہوں نے سوچا کہ ان کو ایسی خرابیوں کو خرابی سمجھنا ہے، خرابی کو روکنا ہے اور آئندہ کبھی بھی پنپنے سے روکنا ہے۔ یہ بات کہہ دینا جتنا آسان اسے کردکھانا اتنا ہی مشکل ہے۔ خرابی کو دور کرنے کے لئے بہت سخت حالات سے نبردآزما ہونے کا حوصلہ چاہئے۔ اس میں کچھ وقت لگ سکتا ہے، مال و وسائل کا ایثار یا پھرجان کی قربانیوں سے گزرنا پڑسکتا ہے۔
اپنے آپ کو بدلنا ہے تو سب سے پہلے ان لوگوں کا مطالعہ کرو جن لوگوں نے خود کو بدلا اور پھر اپنے ماحول میں تبدیلی لائے۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے سب سے پہلے تو پیغمبروں کے کردار اور طرز ہا ئےحیات کو ہی دیکھ لو۔ جب پیغمبر اللہ کا پیغام لے کر آیا کرتے تھے تو ان کی کس قدر مخالفت کی جاتی تھی۔ الہامی صحائف اور کتبِ سماویہ گواہ ہیں کہ سوسائٹی کے طاقتور غاصب عناصر نے ان کی کس قدر شدید مخالفت کی۔ اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کا آغاز انبیائے کرام کی زندگیوں کے مطالعہ سے کرو جو ایک مکمل اور جامع عمل ہوگا۔
عصر حاضر کی مثالوں سے بھی روشنی حاصل کرو۔ اقبال، حسرت، جوہر،سرسید، فیض اور سبطِ حسن کو پڑھو۔ والٹیئر، روسو، ٹالسٹائی، ہیگل، کانٹ، ہوبس اور جان لاک کو پڑھو۔ ذہین کے ساتھ ساتھ عملی لوگوں کو پڑھنا ہے تو برطانوی ولیم ولبرفورس کو پڑھو جس نے پرامن تحریک کے ذریعے جدوجہد کی اور برطانیہ سے غلامی کا خاتمہ کرنے کے لئے پارلیمنٹ میں بل پیش کیا ۔وہ چوبیس سال تک اس مقصدکے لئے لڑتا رہا بالآخر جیت اسی کی ہوئی۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کو پڑھو جس نے امریکی سیاہ فام طبقے کے لئے پرامن جدوجہد کی یہاں تک کے امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا اور ایک روز ایک بزدل نے اسے جان سے مار دیا۔طاقت اور بزورِ شمشیر تبدیلی لانے والوں کا مطالعہ کرنا ہے تو ارنسٹ چے گوویرا کو پڑھو جو ڈاکٹر کی حیثیت سے پرسکون زندگی گزاررہا تھا لیکن استعماریت کے درپردہ مظالم سے ایسا دلبرداشتہ ہوا کہ ساری زندگی کے لئے ہتھیار ہاتھ میں اٹھا لیا۔ زندگی کا سکون غارت ہوگیا، نہ گھر رہا نہ گھر والے لیکن اپنے مقصد سے نہ ہٹا کیوبا کے انقلابی فیدل کاسترو کا دستِ راست بنا۔ کیوبا میں انقلاب لانے کے بعد دوسرے ممالک میں استعماریت کے خاتمہ اور اشتراکیت کے پرچار میں مصروف ہوگیا بالآخر بولیویا میں جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔
میرے بچو علم ترقی کے راستے کا پہلا زینہ ہے جب ہی توتعلیم ہر غاصب کا ہدفِ راست رہی ہے۔ تمہارے سالانہ بجٹ میں سے تعلیم پر ہونے والی بار بار کٹوتی اس کا نمایاں ثبوت ہے۔ مطالعہ اور تعلیم کو اپنا زیور بنالو تو یہ تم کو دنیا کی سب سے جاذب نظر قوم بنادے گا۔ تم میں قابلیت ہے مگر اس کو اجاگر کرنے کے لئے تم کو خود ہی آگے آنا ہوگا۔ خود کو بدلو اور اقبال کے قول کے مطابق اپنی خودی کو بلند کرلو پھر دیکھنا کہ کون تمہاری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتا ہے۔